بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ابتدائے اسلام کے اہم واقعات میں سے ایک جنگ بنی نضیر' ہے جو ہجرت کے چوتھے سال میں ہوئی۔ یہ معرکہ نہ صرف ایک فوجی واقعہ تھا بلکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کے یہودیوں کی دیرینہ دشمنی کا اظہار بھی تھا۔ بنی نضیر کے یہودی، جو مدینہ کے جنوب میں واقع مضبوط قلعوں میں رہتے تھے، ابتدا ہی سے نفاق، عہدشکنی، اسلام دشمنی، اور اسلام دشمنوں کی تحریک انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے کے ذریعے نوزائیدہ اسلامی معاشرے کے خلاف موقف اپنا چکے تھے۔ اس واقعے کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دشمنی صرف سیاسی یا معاشی تنازعے کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اس کی جڑ مذہبی حسد، معاشی نقصان اور اسلام کے فروغ سے خوف سے عبارت تھی۔
بنی نضیر کون تھے؟
بنی نضیر مدینہ کے تین بڑے یہودی قبائل (بنو قینقاع اور بنو قریظہ کے ساتھ) میں سے ایک تھے۔ وہ مدینہ میں محفوظ اور سرسبز قلعوں میں رہتے تھے اور زراعت، شراب سازی اور تجارت میں مہارت کی وجہ سے ان کے پاس کافی دولت تھی۔ معاشیات کے علاوہ انہوں نے بعض عرب قبائل جیسے اوس اور خزرج کے ساتھ سیاسی اور فوجی تعلقات بھی قائم کر لئے تھے۔ عقیدہ کے لحاظ سے یہود اپنے آپ کو انبیاء کا وارث سمجھتے تھے اور "موعود پیغمبر" کا انتظار کرتے تھے لیکن جب عربوں میں سے کوئی نبی پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا کسی طرح سے استقبال نہیں کیا اور اسلام سے دشمنی اختیار کرلی۔
میثاق مدینہ اور یہودی منافقت کا آغاز
نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبائل کے درمیان "معاہدہ مدینہ" طے پایا۔ معاہدے کے فریقوں نے عہد کیا کہ وہ بیرونی دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ایک دوسرے سے خیانت نہیں کریں گے۔ بنی نضیر کے یہودیوں نے اس معاہدے کو بظاہر قبول کر لیا لیکن عملی طور پر شروع ہی سے اس قبیلے کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی اور دشمنان اسلام کے ساتھ خفیہ تعاون کے آثار دیکھے گئے۔ معاہدے کے فریقوں کا ساتھ دینے کے بجائے وہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ کے ساتھیوں پر ضرب لگانے کے لئے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قتل کی ناکام یہودی سازش
غزوہ بنی نضیر کی اصل چنگاری یہودیوں کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو قتل کرنے کی کوشش تھی۔ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو افراد کے خون کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بنی نضیر کے پاس تشریف لے گئے تاکہ وہ باہمی معاہدے کے مطابق اپنا حصہ ادا کریں۔ بنی نضیر کے بزرگوں نے ظاہری طور پر آپ(ص) کا تقاضا قبول کر لیا، لیکن در پردہ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ طے یہ پایا کہ ان میں سے ایک چھت سے ایک پتھر اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سر پر پھینک دے۔ جبرائیل امین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو یہودی سازش کی اطلاع دی، اور آپ(ص) فوراً اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ صریح غداری میثاقِ مدینہ کی صریح خلاف ورزی تھی جس نے یہودیوں کی دشمنی آشکار کر دی۔
بنی نضیر کے قلعوں کا محاصرہ
اس کارروائی کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں مدینہ چھوڑنے کے لئے مہلت دی۔ لیکن منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے یہودیوں کو مزاحمت کی دعوت دی اور ان سے مدد کا وعدہ کیا۔ بنی نضیر کو اس خیال سے حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مہاجرین اور انصار کے لشکر کے ساتھ قلعوں کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ تقریباً پندرہ دن تک جاری رہا۔ دشمن کی مزاحمت توڑنے کے لئے مسلمانوں نے قلعے کے اردگرد کھجوروں کے کچھ باغات کاٹ ڈالے جس کا یہودی جذبے پر شدید نفسیاتی اثر ہؤا۔ منافق ـ جو کسی کے ساتھ بھی منافقت کر سکتے تھے ـ مدد کو نہیں آئے، اور بنی نضیر کے یہودیوں نے بالآخر ہتھیار ڈال دیئے۔
بنی نضیر کی جلاوطنی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں ہلاک کرنے کے بجائے انہیں مدینہ چھوڑنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ وہ ہتھیاروں کے سوا، جو کچھ بھی چاہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ ان میں سے اکثر نے خیبر اور شام کی طرف ہجرت کی۔ بنی نضیر کے خاندان کے "حی ابن اخطب" جیسے صرف چند افراد نے بعد میں جنگ خندق جنگ بنی قریظہ میں دوبارہ اسلام کے خلاف سازش کی۔ بنی نضیر کی جائداد، زمینیں اور قلعے مسلمانوں کے کے جصے میں آئے اور اس میں سے کچھ غریب مہاجرین کو دے دیئے گئے۔
قرآن یہودی دشمنی کا پردہ فاش کر دیتا ہے
سورہ حشر میں بنی نضیر کے واقعہ کی طرف براہ راست اشارہ ہؤا ہے اور ان کی دشمنی کو عیاں کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
"هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ؛ (الحشر- 2)
وہ وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر ہونے والوں کو پہلی ہی بے دخلی مہم میں ان کے گھروں سے نکال دیا۔"
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نضیر کی بے دخلی، 'یہودیوں کی عہد شکنی' کی سزا کا پہلا مرحلہ تھا۔ قرآن منافقین کے ساتھ ان کی وابستگی اور ان کے 'قلعوں کی مضبوطی کے بارے میں ان کے وہم' کا بھی تذکرہ کرتا ہے اور اسی آیت کے تسلسل میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا؛ (الحشر- 2)
اور وہ یہ سمجھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے مگر اللہ (کا عذاب) ان پر ایسی جانب سے آیا جہاں سے انہیں [عذاب آنے کی] توقع ہی نہیں تھی۔"
یہودیوں کی اسلام دشمنی کا تجزیہ؛ دشمنی کی نظریاتی جڑیں
بنی نضیر کے یہودی اسلام کو اپنی مذہبی اجارہ داری کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ وہ بنی اسرائیل کی نسل سے ایک نبی کے ظہور کی توقع رکھتے تھے لیکن جب نبی عربوں سے اٹھے تو نسلی حسد اور تعصب نے انہیں حق کو قبول کرنے سے روک دیا۔
اقتصادی جڑیں
ان کی دولت اور زرعی زمینیں ان کی سماجی طاقت کا سبب تھیں۔ اسلام نے ـ جو مساوات اور انصاف پر زور دیتا تھا، ـ ان کے طبقاتی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس لئے انہوں نے اپنی معاشی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے اسلام کے خلاف جنگ کی۔
یہودیوں کا منافقین اور مشرکین سے اتحاد
بنی نضیر کے اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے ہمیشہ تعلقات رہتے تھے۔ انہوں نے جنگ احد اور احزاب کے منصوبوں میں براہ راست کردار ادا کیا تھا۔ مشرکین اور منافقین کے ساتھ ان کی یہ خفیہ اور اعلانیہ ساز باز ااسلام سے ان کی تزویراتی دشمنی کو عیاں کرتی ہے۔
عہدشکنی یہودیوں کا ہتھیار
بنی نضیر کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے یہودی جب بھی موقع پاتے تھے معاہدوں کو توڑ دیتے تھے۔ یہ خصلت مسلمانوں کے لئے ایک دیرپا سبق بن گئی کہ وہ سیاسی اور سماجی تعلقات میں دشمن پر بھروسہ نہ کریں؛ گوکہ آج کے مسلمان یہودیوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان سے بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود، اس بھروسے کو برقرار رکھتے ہیں!!
غزہ بنی نضیر کی عبرتیں آج کے لئے
چھپے ہوئے دشمن کی شناخت:
دشمن ہمیشہ کھل کر سامنے نہیں آتا؛ کبھی وہ اتحادی اور ساتھی یا شریک کے بھیس میں سامنے آتا ہے، لیکن پس پردہ سازش کرتا ہے۔
اندرونی خیانت سے ہوشیار رہنے کی ضرورت:
منافقین نے بنی نضیر کو جھوٹے وعدے دے کر دھوکہ دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی دشمن اندرونی اتحادی کے بغیر زیادہ طاقتور نہیں ہوتا۔
اللہ کے وعدوں پر بھروسہ:
بنی نضیر اپنے بلند قلعوں کے باوجود شکست کھا گئے جبکہ مسلمان ایمان اور اتحاد کے بدولت فتح یاب ہوئے۔ یہ ایک ابدی سبق ہے کہ حقیقی طاقت الہی مدد و نصرت میں ہے، ظاہری وسائل میں نہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا رحیمانہ انتظآم
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سخت ترین سزائیں دے سکتے تھے، لیکن آپ(ص) نے ان کے لئے جلاوطنی کا انتخاب کیا۔ اس رویئے سے ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ اسلامی رحمت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
غزوہ بنی نضیر عہد شکن دشمنوں سے اسلام کے فیصلہ کن مقابلے کا ایک میدان تھا۔ بنی نضیر کے یہودیوں نے خیانت اور سازش کے ذریعے اپنی کھلی دشمنی کا ثبوت دیا اور بالآخر انہیں مدینہ سے نکال باہر کیا گیا۔ یہ واقعہ مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی سبق ہے اور وہ یہ کہ اسلام کے خلاف یہودیوں کی دشمنی محض ایک وقتی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری اور تزویراتی تھیں۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو سورہ حشر میں بھی درج کیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں جان لیں کہ دشمنان اسلام کے خلاف بصیرت، عزم اور اتحاد سے کام لینا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ